سوزش شعلۂ فرقت سے فنا ہو جانا
مرض غم کے لیے ہے یہ دوا ہو جانا

سہل ہے ناوک مژگاں کا قضا ہو جانا
غمزۂ چشم کا آساں ہے جفا ہو جانا

آرزو تجھ سے یہ کہتا ہوں شب فرقت میں
خود دعا ہونا کبھی دست دعا ہو جانا

صورت خاک گلستاں میں نہ رہنا اے دل
مثل بو دامن گلشن سے جدا ہو جانا

داغ بن کر تو رہا دامن قاتل پہ مگر
بوئے خوں بہر خدا بوئے وفا ہو جانا

بے قراری سے تو راØ+ت ہو کوئی دم Ø+اصل
جسم سے جان Ø+زیں جلد جدا ہو جانا

شب غم دل سے جمیلہؔ نے یہی رو کے کہا
مل کے مٹی میں تو نقش کف پا ہو جانا
جمیلہ خدا بخش